214

سیلابی تباہی میں عمرانی سونامی انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ماحولیاتی تباہی کے باعث پاکستان کے سیلاب و طوفانی بارشوں سے تباہ حال وسیع علاقے کے دورے پہ ہیں، تین کروڑ تیس لاکھ بدحال لوگوں، ایک تہائی ڈوبے ہوئے پاکستان کی تباہی و بربادی بیان سے باہر ہے۔ اس وقت تک کے اندازے کے مطابق مجموعی نقصانات 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں جس میں غریبوں کی بدحالی کا شایدکسی کو سوائے ان کے جو تباہ حال ہیں اندازہ نہیں۔ سیکرٹری جنرل کی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کو یہ تنبیہ بروقت ہے کہ صنعتی فضلے ، ماحولیاتی تابکاری اور کاربن کے پھیلاﺅ کے ذمہ دار وہ ہیں، لیکن جن کا قدرت سے جنگ میں ہاتھ نہایت خفیف ہے وہ ان کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ انتونیو گوتریس کی اس مشکل گھڑی میں تباہی سے نمٹنے اور بحالی و تعمیر کے کام کو شروع کرنے کے لیے عالمی اپیل کا یقینا بڑا نوٹس لیا جائے گا۔ جب وہ ہفتہ کو سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لے کر واپس آئیں گے تو ان کے سامنے حالات کی سنگینی کا مشاہدہ اُنہیں امدادی سرگرمیاں تیز کرنے پہ یقینا اور زیادہ مائل کرے گا۔ پاکستان کے سیلاب کی جاری تباہیوں کو جس طرح ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسے عالمی ماحولیاتی بحران کے طور پر پیش کر کے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے وہ یقینا قابل داد ہے۔ اس بارے ہماری ماحولیاتی وزیر شیری رحمان اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی کوششیں بھی گرانقدر ہیں۔ ایک طرف تو شہباز حکومت ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے سخت ترین فیصلے کررہی تھی اور ان کے نتیجہ میں ہوئی مہنگائی پر جوتے کھارہی تھی اور وزیراعظم سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی مہم میں شبانہ روز مصروف تھے۔ تو دوسری طرف عمران خان سیاسی طوفان کو بھڑکانے میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ مڈل کلاس کے پاپولر لیڈر کے دل و دماغ میں کروڑوں تباہ حال لوگوں کی فکر تھی، نہ ان کی دادرسی کے لیے ان کے پاس کوئی وقت تھا۔ ان کے تئیں ملک بھاڑ میں جاتا ہے تو جائے، ان کی اقتدار میں واپسی کا اہتمام وہی لوگ کریں جنہوں نے اُنہیں ناجائز طور پر مسلط کیا تھا۔ بدقسمتی سے پی ڈی ایم کی کوتاہ اندیشی کے باعث اُنہیں ایک جعلی سازش کے بہانے سیاسی مقتول بننے کا موقع کیا ہاتھ آیا وہ اک نئے سیاسی و دیومائی اوتار کے طور پر سامنے آئے اور وہ پیغمبر اسلام کے بعد ہر طرح کی مسیحائی کے دعویدار ہیں۔ ایسے سیاسی طوفان بدتمیزی میں کوئی پاکستان کے ماحولیاتی المیہ کو کیوں سنجیدہ لیتا جس کے نرگسئیت پسند پاپولسٹ لیڈر کا رویہ اتنا غیر ذمہ دارانہ تھا۔ حکومت نے بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرتے دیر کردی کہ یہ معاشی دیوالیہ سے بچنے کی تگ و دو میں لگی تھی۔ اگر وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی صوبائی حکومت حرکت میں آئی بھی تو چیف منسٹر مراد علی شاہ کی حکومت جس کی تکا بوٹی کرنے اردو پریس ہمہ تن تیار ہوتا ہے۔
اب جبکہ نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سنٹر تمام اداروں اور حکومتوں کی شراکت سے تشکیل پاچکا ہے اور عالمی اداروں کے لیے بھی ایک ونڈو آپریشن کا انتظام ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے سیلاب کی تباہی کا معروضی جائزہ جلد سامنے آنا چاہیے، نقصانات کی بالتفصیل وضاحت کی جائے۔ فیڈرل فلڈ کمشن کی 2015 کی رپورٹ کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی روشنی میں ایک ماحولیاتی و قدرت اور عوام دوست پانچ سالہ منصوبہ مرتب کیا جائے جو ان آفات اور موجودہ سیلابی تباہی کے آئندہ خوفناک مضمرات کا جامعہ اور ہمہ نو حل پیش کرے۔ اس کام میں زیادہ وقت لگے گا تو دنیا کی توجہ کہیں اور مبذول ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری وزارت خارجہ کو ہنگامی بنیادوں پر عالمی سطح پر مالی و تکنیکی امداد کے لیے متحرک ہوجانا چاہیے۔ پہلے تو ہمارے وزیر خزانہ کو آزاد منڈی میں ڈالر کے ساتھ جو ہاتھ ہورہا ہے، اس خوفناک ڈاکے کو آزاد منڈی میں اپنے اندھے اعتقادکو ایک طرف رکھتے ہوئے انتظامی و مالی و مالیاتی مداخلت کرنی چاہیے۔ انہیں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی ہو یا اسمگلنگ کا قلع قمع کرنا ہوگا اور کرنسی کے سٹے بازوں اور نجی بینکوں کو لگام دینی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں چاہیے کہ وہ فوراً آئی ایم ایف سے رجوع کریں اور اسے باور کرائیں کہ وہ سیلابی نقصانات کو اپنے جائزے کا حصہ بناتے ہوئے ازسرنو اہداف کا تعین کرے ، قرضوں میں سہولت کی راہ نکالیں اور ریپڈ فائنانسنگ انسٹرومنٹ سے ہنگامی مالی معاونت کی استدعا کرے۔ دیگر مالی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے امداد کے حصول کو تیز کیا جائے۔ مفتاح اسماعیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست تو انہوں نے گنوائی ہی تھی اب بعد از سیلاب معاشی بحران میں پھر پاکستان کی معاشی کشتی نہ ڈوب جائے۔ سیکرٹری جنرل یو این کے دفتر کی مدد اور ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے وزیر خارجہ مصر میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز (27) میں 30 ارب ڈالرز کی ماحولیاتی ایڈاپٹیشن کی سرمایہ کاری کے لیے زبردست سفارتی مہم چلائیں۔ دنیا بھر کی ماحولیاتی تنظیموں سے رابطہ کریں اور ترقی یافتہ ممالک کو ہرجانہ ادا کرنے پہ راضی کریں۔
بعداز سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی سے عیاں ہورہی ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زمین پر فصلیں تباہ، لاکھوں گھر مسمار، کروڑوں لوگ بیروزگار اور تباہ حال، مال مویشی، پیداواری آلات، ذرائع رسل و رسائل، بستیاں اور آبادیاں سیلاب برد ہوئیں ساڑھے تین کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے۔گندم، چاول، سبزیاں، گوشت ودیگر خوردنی ضروریات درآمد کرنا پڑیں گی، وبائی بیماریوں کا الگ سے سامنا ہوگا اور ادویات کی فراہمی کرنا ہوگی۔ نیز تمام تر بنیادی ڈھانچے اور انسانی پیداواری سرگرمیوں کی بحالی کے لیے زور لگانا ہوگا۔ ایسے میں درآمدات بڑھیں گی اور تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔ اسوقت بھارت سے خوردونوش کی اشیا، سبزیاں، گندم، کپاس، ادویات و دیگر درمیانی اشیا فوراً واہگہ کے راستے سستے داموں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جائے، اس سے کشمیریوں کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ پاکستان کے حالات متقاضی ہیں کہ ہم اپنے قومی سلامتی کے جنگجوانہ نظریہ کو خیرباد کہیں اور معاشی و انسانی و ماحولیاتی سلامتی کے راہ عمل کو اپنائیں۔ اخراجات کایقین بھی اسی بنیاد پر ہو اور غیر پیداواری اخراجات پہ مناسب کٹ لگایا جائے۔یہ تو تھے ملک کو درپیش کچھ خوفناک ترین مسئلے۔
لیکن جو مسئلہ مسئلہ نہ ہوتے ہوئے بھی بدترین صورت اختیار کرگیا ہے وہ ہے خوفناک سیاست کا بدترین تماشہ۔ عمران خان کو قبل از وقت نکالنا بھلے وہ ایک آئینی و جمہوری طریقے سے فارغ کیے گئے، ایک غلطی تھی۔ اگر وہ اپنی ٹرم پوری کرتے تو پبلک میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ اب وہ جبکہ ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں اور بہت مقبول ہوگئے ہیں، انہیں حد سے گزرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جن انتخابی نتائج کی وہ آج توقع کررہے ہیں وہ آٹھ دس ماہ میں بدلنے والی نہیں۔ جانے وہ کیوں سیاسی خودکشی پہ تلے ہیں، ان کے بعد تو کوئی لیڈر ان کی پارٹی کو سنبھالنے والا نہیں، نہ ہی انہیں کسی پہ اعتماد ہے اور جن پر اعتماد ہے وہ کسی قابل نہیں۔ ”مائنس ون“ کی طرف تو وہ خود مقتدرہ اور عدلیہ کو دھکیل رہے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس ہو، توشہ خانہ کیس ہو یا فوجداری توہین عدالت کا مقدمہ، یہ بہت سب ان کے اپنے پیداکردہ ہیں۔ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے معافی مل سکتی تھی اور ہائیکورٹ نے انہیں دو مواقع بھی دئیے، لیکن یہ خان صاحب کی انا کے خلاف ہے کہ وہ عدلیہ کے احترام میں سرخم کرتے۔ انتخابات اب زیادہ دور نہیں، لیکن اگلے برس کے دوسرے وسط سے پہلے نہیں ہوسکتے۔ عمران خان اب ذرا ٹھنڈی سانس لیں اور دوسروں کو بھی سکھ کا سانس لینے دیں۔ چند مہینوں سے انہیں کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ ان کی پارٹی کسی بڑے کریک ڈاﺅن کی متحمل نہیں ہوسکتی، نہ ہی ان کے بعد کوئی خان کا جانشین ہوسکتا ہے۔ جس پارلیمنٹ کے آپ آئندہ لیڈر بننا چاہتے ہیں، اس کا احترام بحال کریں۔ آپ کے استعفے پہلے ہی نامنظور ہوچکے ہیں۔ دو قدم آگے بڑھنے کے لیے ایک قدم پیچھے لینا ضروری ہے۔ ویسے بھی پاکستان آپ کی نظر کرم کا طالب ہے، سونامی کا نہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں