154

ماحولیاتی انصاف انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

قدرت کا عذاب، اب قدرت کے ہاتھوں کم اور انسانوں کا زیادہ پیدا کردہ ہے جس کا سامنا اسوقت دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے والے پاکستان کو ہے ۔ ایک طرف ہماری ریاستی مشینری انسانوں ا ور پاک دھرتی کی سیوا کی بجائے بیرونی سلامتی کے تقاضوں سے جڑی ہے۔ دوسری طرف درجن بھر ادارے، حکومتیں اور ایجنسیاں ہیں جو بغیر کسی وژن اور منصوبے اور کوآرڈینیشن کے بحران میں غوطے کھارہی ہوتی ہیں اور رہنما فوٹو سیشن کے ذریعے داد وصول کرنے کے چکر میں خالی خولی اشک شوئی کرتے نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان کو وہ بھی توفیق نہ ہوئی اور وہ اپنے سیاسی ناچ گانے میں مگن ہیں۔ قدرتی آفات اور سیلابوں کا ذمہ دار ناکردہ گناہوں کو ٹھہرا کر سیلاب و آفت زدگان کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر خیراتی اداروں کے ایصال ثواب کی نذر۔ سیلاب آتے ہیں گزر جاتے ہیں، دھائیاں دی جاتی ہیں اور چیخ و پکار کی جاتی ہے اور پھر لوگوں کو چند ٹکے دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تاآنکہ سیلاب کا اگلا ریلا آتا ہے اور پھر گزرجاتا ہے۔ اسوقت تک 160 میں سے 116 اضلاع زیر آب ہیں۔ 15 لاکھ انسانی اموات، 33 ملین لوگ بے گھر، دو ملین ایکڑ پہ فصلیں تباہ، ایک ملین جانور ناپید، 3 ہزار کلومیٹر سڑکیں نابود، 670,00 گھر مسمار اور 145 پل تباہ ہوچکے ہیں۔ دو ماہ سے جاری بارشوں اور سیلابوں سے آبادی کے بچاﺅ کا وقت گزر چکا اور تمام تر ادارے دیکھتے رہ گئے۔ ریلیف کے لیے بھی پانی اترنے اور راستے بحال ہونے کا انتظار ہے، جب تک ہنگامی امداد پہنچے گی جانے کیا کیا انسانی المیے گزر جائیں۔ 73 ہزار تو وہ خواتین ہیں جو حاملہ ہیں اور باقی دس لاکھ کو ماہواری کے پیڈز بھی میسر نہیں۔ بھوک ہے پیاس ہے، بیماری ہے اور بے سروسامانی ہے۔ ویسے بھی سیلاب اور طوفان باراں وہیں زیادہ آیا ہے جو محروم ترین علاقے ہیں اور جہاں غربت و پسماندگی زیادہ ہے۔ امرا تو انخلا کرگئے، غریب کہاں جاتے سوائے مرنے کے یا پھر دربدر ہونے کے۔
2010 کے سیلاب کے بعد جولائی،ا گست، ستمبر کی طوفانی بارشیں اور سیلاب سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ بڑی وجہ تو تباہ کن ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو ترقی یافتہ شمال نے پیدا کی ہیں اور بھگت رہا ہے پسماندہ و دست نگر جنوب۔ دنیا ایک بڑی ماحولیاتی تباہی کے در پہ ہے۔ مغرب کے صنعتی انقلاب، نوآبادیاتی استحصال، حیاتیاتی ایندھن (کوئلہ، تیل، گیس) کے بے تحاشہ استعمال اور عالمی سرمایہ داری کی نفع خوری کے ہاتھ قدرت کے تمام ذرائع کی لوٹ و بربادی نے دنیا کے ایکوسسٹم، بائیو ڈائیورسٹی اور قدرت اور انسان کے مابین نامیاتی تعلق کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اندھیری نے قدرت و حیات کو وجودی خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ جیالوجسٹ اسے ایتھروپوسین زمانہ یعنی انسان کے ہاتھوں قدرت کی تباہی کا دور کہتے ہیں۔ ماحولیاتی کثافت پھیلائی تو ترقی یافتہ مغرب نے خمیازہ مشرق بھگت رہا ہے۔ قدرت کی قیمت پر مال بنایا نفع خوروں اور ملٹی نیشنلز نے، ماحولیاتی ناانصافی کا شکار ہوئے محنت کش عوام۔ ہم شاید بھول رہے ہیں کہ اس سال مارچ اپریل پاکستان میں گرم ترین تھا۔ ٹمپریچر 53 سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔ جس کے بعد نمی کے اضافے سے بارشوں نے موسلا دھار ہونا ہی ہونا تھا۔ ساحلی علاقوں میں مون سون سے پہلے بارش ہوتی تھی، بلوچستان میں سردیوں میں۔ اب کی بار سندھ میں 784فیصد اور بلوچستان میں 500 فیصد بارش زیادہ ہوئی۔ اوپر سے کوہ سلیمان کے برساتی ریلوں نے جنوب مغربی پنجاب، شمالی بلوچستان اور جنوبی پختونخوا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ گلیشیئر پگھلے تو گلگت بلتستان کے کچھ علاقے ملیا میٹ ہوئے۔ بالائی پختونخوا میں بھاری بارشوں نے چترال اور سوات کو تباہ کردیا۔
جس جدید نوآبادیاتی ریاست کا دل عوام کے ساتھ نہ ہو تو اس نے قدرتی آفات کے حوالے سے جو کیا وہ سامنے لائے دیتے ہیں۔ 2010 کے سیلاب کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آبی گزرگاہوں میں تعمیرات نہیں ہوں گی جو سیلابی پانی کے قدرتی بہاﺅ کو روکیں۔ عمل نہ کیا گیا۔ فیڈرل فلڈ کمشن نے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان پر کام شروع کیا۔ 2015-2023 کے لیے پلان 2015 میں مرتب ہوا جس پر 332 ارب روپے لاگت آنی تھی۔ 2019 میں PC-1 بھی بن گیا، لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہ آئی۔ لیکن نوکرشاہی کی پھرتیاں دیکھیں کے متعدد ادارے NDMA، NDMC، NFRCC، فیڈرل فلڈ ریلیف کمیشن، ہر سطح کی حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں بغیر کسی نیشنل ایکشن پلان اور ویژن کے میدان میں ہیں۔ لیکن مقامی حکومت جس نے سب کچھ کرنا تھا ناپید ہے۔
ریلیف کا کام ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ ضروریات زیادہ ہیں ذرائع کمیاب۔ شکر ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور یو این کے سیکرٹری جنرل کی اپیل پر 131 ارب روپے جمع ہوگئے ہیں اور دوست ممالک اور عالمی این جی اوز مدد کو آرہی ہیں جن پر 2013 میں سلامتی کے نام پر بندش لگادی گئی تھی۔ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے مالیاتی شکنجے میں ہے، بمشکل ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب ہوکر بھی خزانے میں اتنے پیسے نہیں کہ تباہ حالوں کی داد رسی کی جاسکے۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا کے ماحولیاتی جرائم کی سزا پاکستان جیسےا ور دس ملک کیوں بھگتیں؟ ابتدائی اندازوں کے مطابق تقریباً 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے جو 20 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہماری وزارت خارجہ، وزارت ماحولیات اور وزارت منصوبہ بندی پہل قدمی کریں۔ کلائمیٹ ایڈاپٹیشن فنڈز کو اپیل کی جائے۔ نومبر 2021 میں گلاسگو میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز26 (COP26)میں نقصانات اور تباہ کاریوں کا میکنیزم (LDM) تشکیل دیا گیا تھا۔ قبل ازیں 2009 میں 100 ارب ڈالرز کی گرین کلائمیٹ فائنانسنگ کا وعدہ کیا گیا تھا جو 2023 تک ملتوی کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ 10 ارب ڈالرز کے حصول کی کوششیں ابھی سے شروع کی جائیں۔ اس برس مصر میں کانفرنس آف پارٹیز 27 منعقد ہورہی ہے، جہاں ہمارے وزیر خارجہ کو بہتر تعمیر نو کا تحفیف (Mitigation)کی بجائے موافقت کی حکمت عملی (Adaptation) کا منصوبہ پیش کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف سے بھی مفتاح اسماعیل کسی بڑے ریلیف پیکج کی بات شروع کرسکتے ہیں جس کی ایسی امداد کے لیے علیحدہ کھڑکی ہے۔
اس جاری طوفان و بربادی میں بہتر ہے کہ نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان کو اپ ڈیٹ کر کے اس پر فوری طور پر کسی اجتماعی کمشن کے تحت عملدرآمد شروع کردیا جائے۔ یہ نہ بھولنا چاہیے کہ پاکستان کے کم و بیش دس زرعی و ایکولاجیکل علاقے ہیں اور ان کے اپنے اپنے مخصوص حالات ہیں۔ بہتر ہوگا کہ مقامی حکومتوں کو بحال کر کے بحالی اور تعمیر نو کا پروگرام ان کے ذریعہ کیا جائے۔ 2022 کی تباہیوں اور بربادیوں کو دہرانے نہ دیا جائے۔ پاکستان کو معاشی سلامتی، سیاسی و جمہوری استحکام کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی انصاف بھی چاہیے۔ اور اسے اب ٹالا نہیں جاسکتا!
بابا گورونانک نے قدرت بارے خوب کہا تھا
پون (ہوا) گرو، پانی پتا
ماتا دھرت مہت
دیوس (دن) رات دوئے دائی دایا
کھیلے سگل (جگ) جگت (دنیا)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں