260

تحریک انصاف پچھلے قدموں پر انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

گزشتہ ہفتے میں تحریک انصاف کا اخلاقی دیوالیہ پٹ گیا ہے اور عمران خان پہلی بار بیک فٹ پہ جانے پہ مجبور ہوئے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا آیا، صداقت،ا مانت اور شرافت کے تمام دبیز پردے تار تار ہوئے۔ تحقیقات کے نتائج و شواہد سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف جانتے بوجھتے ممنوعہ ذرائع سے بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کرتی رہی جن میں 315 کمپنیاں اور تین درجن غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ 16 اکاﺅنٹس کو چھپایا گیا جبکہ ان میں سے 13 اکاﺅنٹس بے نامی ہونے کے باوجود آٹھ آفیشل اکاﺅنٹس سے جڑے پائے گئے۔ جن کے دستخط کنندہ میں عمران خان سمیت دیگر لیڈر بھی ملوث پائے گئے۔ اوپر سے پارٹی چیئرمین کے چار پانچ سالوں کے اکاﺅنٹس پر عمران خان کے سرٹیفکیٹس کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک فارن ایڈڈ یعنی ”بیرونی امداد“ جس میں صرف بیرونی حکومتیں اور جماعتیں شامل ہیں کے حوالے سے ابراج گروپ کے ذریعہ متحدہ عرب امارات کے وزیر شیخ مبارک النہیان کے 20 لاکھ ڈالرز کے حوالے سے ایک پیچیدہ ٹرانزیکشن ہے جس کی گتھی فنانشل ٹائمز کی سٹوری میں بدرجہ اتم آشکار کی گئی ہے۔ اب الیکشن کمشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ایک شوکاز نوٹس تحریک انصاف کو دیا ہے کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈز بحق سرکار ضبط کرلیے جائیں۔ ساتھ ہی عمران خان کی نااہلی کے لیے ریفرنسز پہ کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ بس پھر کیا تھا وفاقی حکومت نے آئین کے شق 17(3) کے تحت تحریک انصاف پر پابندی کے لیے ڈکلیئریشن جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ڈکلیئریشن ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کیا جاتا ہے یا ”بیرونی امداد“ سے چلنے والی پارٹی کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ بادی النظر میں ”فارن ایڈڈ“ پارٹی کے طور پر بندش کے لیے مواد ناکافی لگتا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا مشکل ہوگا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ فل کورٹ بنچ ہوگا یا چھوٹا ہم خیال بنچ؟ جوڈیشل کمشن کی کارروائی کے حوالے سے پہلے ہی سپریم کورٹ تقسیم ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ حنیف عباسی بمقابلہ عمران خان کے مقدمے کے حوالے سے پہلے ہی میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بنچ بہت سے آئینی سوالات پہ رائے دے چکا ہے اور ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے معاملے کو الیکشن کمشن کے حوالے کرچکا تھا۔ بظاہر زیادہ سے زیادہ تحریک انصاف کے فنڈز ضبط ہوسکتے ہیں اور بے نامی کھاتے داروں بشمول عمران خان کے نااہلی کا کیس آگے بڑھ سکتا ہے۔ عمران خان پہ صادق و امین نہ رہنے (62(1)-f) کا مقدمہ خان صاحب کے سیاسی کیریئر کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ جو کانٹے سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے بوئے گئے تھے اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے کر پارٹی صدارت سے بھی علیحدہ کردیا گیا تھا، وہ عمران خان کے بھی گلے پڑسکتے ہیں۔ پارٹی اکاﺅنٹس کے حوالے سے ان کے سرٹیفکیٹس، توشہ خانہ کیس اور کچھ دیگر کیسز کے حوالے سے وہ عمران خان جو تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کرنے پہ ہر حد کراس کرتے رہے، اب خود متعدد مقدمات میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پہ مجبور ہوں گے۔ اگر وہ نااہل بھی قرار دے دئیے گئے تو انہیں نواز شریف کی طرح پارٹی رہبر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے سوائے جیل کے کوئی نہیں روک سکتا۔ جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم اور پاپولر لیڈر کو پھانسی پہ چڑھایا جاسکتا ہے ، دو بار منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سر راہ قتل کروایا جاسکتا ہے، تین بار منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دیا جاسکتا ہے، وہاں کھلنڈرے کراﺅڈ کے چاکلیٹ ہیرو کے ساتھ کیا نہیں کیا جاسکتا؟ لیکن عوامی قائدین اور عوامی جماعتوں کو تکنیکی طریقوں سے سیاسی میدان سے باہر کیا جاسکتا ہے اور نہ کرنا چاہیے۔ جو دو عناصر عمران خان اور تحریک انصاف کی بڑی قوت تھے، لگتا ہے وہی ان کے گلے میں کانٹوں کے ہار بن گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو لوگ ووٹ اور نوٹ دیتے تھے۔ عمران خان نے بھی شوکت خانم کے حوالے سے خوب خیراتی فنڈز اکٹھے کیے اور اسی تجربے سے انہوں نے سیاسی فنڈ اکٹھے کیے۔ لگتا ہے کہ خیرات سے حاصل کردہ فنڈز بھی تحریک انصاف کے کھاتے میں استعمال ہوئے اور جس طرح سے سمندر پار پاکستانیوں نے یہ فنڈز اکٹھے کیے وہ ان ممالک کے قوانین سے لگا نہیں کھاتے۔ سب سے خطرناک اور بری مثال ابراج گروپ اور متحدہ عرب امارات کے شیخ مبارک کی فنڈنگ کی ہے۔ ابراج گروپ کے عارف نقوی جو کے الیکٹرک میں بڑے شیئر ہولڈر تھے نے عمران خان سے بڑے مالی فوائد بھی حاصل کیے اور اب وہ ایک عالم…
لسبیلہ قومی سانحہ ہو یا کابل میں امریکی ڈرون کے ذریعہ ایمن الظواہری کی ہلاکت، پی ٹی آئی کے آفیشل ٹرالز نے اس پر جس طرح کی گمراہ کن اور بیہودہ مہم چلائی، اس سے لگا کہ جس ففتھ جنریشن وار فیئر کے لیے جو کھیپ تیار کی گئی تھی وہ اب اپنے سرپرستوں کے خلاف پلٹ پڑی ہے۔ افواج پاکستان کی طرف سے اس پر ردعمل آنا ایک فطری عمل تھا اور صدر عارف کو شہدا کے جنازے میں شرکت سے روک دیا گیا ۔ اب لگتا ہے کہ عمران خان بہت بے چین ہوگئے ہیں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں جس کے باعث وہ غلطیوں پہ غلطیاں کرتے جارہے ہیں۔ اگلے دنوں میں وہ پھر ایک جلسے میں حکومت پر انتخابات کے اعلان کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دینے والے ہیں۔ جب آئی ایم ایف کا بورڈ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے معاملے پر غور رہا ہوگا۔ سوال اٹھے گا کہ کیا عمران خان نہیں چاہتے کہ پاکستان دیوالیہ سے بچے۔ ساتھ ہی یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ 9 خالی ہونے والی نشستوں پر خود اُمیدوار ہوں گے جبکہ وہ اسمبلی میں ہوتے ہوئے بھی اس میں واپس جانے کو تیار نہیں۔ جس طرح کا اخلاقی پردہ گرا ہے، تحریک انصاف کو اس سے سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کپتان کو کون سمجھائے کہ وہ اب لاڈلے نہیں رہے اور اگر انہیں 9نشستوں پہ انتخاب لڑنے سے نااہل کردیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں