213

بجٹ: کیا ننگی نہائے گی، کیا نچوڑے گی انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

کیا ننگی نہائے گی، کیا نچوڑے گی کے مصداق پہ بجٹ بھی ایک ٹھس معیشت کا پُھس میزانیہ ہے۔ بیچارہ مفتاح اسماعیل کرتا بھی کیا۔ آئی ایم ایف کو زیادہ خوش کرتا تو عوام ناراض، عوام کو خوش کرے تو آئی ایم ایف ناراض۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ معیشت کی کمر کسے تو سیاست کی کمر میں ’چُک‘۔ بجٹ اجلاس کا لوگ تین وجوہ سے انتظار کرتے ہیں۔ مہنگائی کتنی بڑھے گی، رعایات کیا ملیں اور ٹیکس کتنے اور کس پر لگے۔ ان تینوں توقعات پہ بجٹ نے پانی پھیر دیا ہے۔ مہنگائی کا تخمینہ جاتے برس سے آدھا فیصد زیادہ یعنی 11.5 فیصد۔ مہنگائی گیارہ فیصد تھی نہ ساڑھے گیارہ فیصد ہوگی۔ یہ 20 فیصد سے اوپر تو جائے گی، نیچے نہیں آئے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مہربانی کی کہ تنخواہیں دس فیصد کی بجائے پندرہ فیصد بڑھا دیں اور مختلف الاﺅنسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کردیا گیا۔ ایک لاکھ ماہوار آمدنی پہ ٹیکس معاف۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے اور نوجوانوں کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلا سود قرضہ۔ لیکن محنت کشوں کی کم از کم اجرت منڈی کی خونخواری کے حوالے۔ دیکھتے ہیں کہ کونسا صوبہ کم از کم اجرت کتنی بڑھاتا ہے۔ جو قوت خرید کے ساٹھ فیصد تک کم ہونے کے باعث 40,000 سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ رہی بات ٹیکسوں میں رعایات کی تو سب سے بڑے مستحقین تاجر رہے جو صرف تین سے دس ہزار ٹیکس دے کر مسلم لیگ ن کے حمایتی برقرار رہیں گے۔ ادویات، سولر پینل، فلمی ٹیکنالوجی، ٹریکٹر اور کھاد سستے ہوں گے کہ نہیں، دیکھا جائے گا۔ اسٹیٹ کے کاروبار، بڑے سرمایہ داروں پہ کچھ ٹیکس تو بڑھایا گیا ہے، لیکن لگتا ہے کہ شکنجہ اپر مڈل کلاس کا کسا گیا ہے جو ”تبدیلی آئی ہے“ رو رو کر پکارے گی۔ مقتدرہ اور اس کے مقتدر ادارے خوش کہ اس کا بھتہ جوں کا توں لیکن اضافی بونس کے ساتھ۔
اب آتے ہیں ٹُھس معیشت کے پُھس بجٹ پر۔ پہلے آمدنی کو لیتے ہیں۔ کل محصولات 9کھرب روپے۔ جس میں بالواسطہ یا عوام پر ٹیکس 4.4 کھرب روپے اور غیر محصولاتی آمدنی 2 کھرب روپے ہے، جبکہ براہ راست ٹیکس 2.6 کھرب روپے ہیں۔ جس میں فی لٹر پٹرول پر 50 روپے لیوی لگانے سے 300 ارب روپے سمیت اضافی ٹیکس 740 ارب روپے ہوگا۔ صوبوں کا حصہ 4.1 کھرب روپے نکال دیں تو مرکز کے پاس 5 کھرب بچ رہیں گے۔ ان 5 کھرب روپے میں سے تقریباً 4کھرب قرضوں کے سود اور دفاع پر1.52 کھرب اور پنشنر کے نصف کھرب نکال کر باقی تمام اخراجات بشمول ترقیاتی بجٹ اور سویلین انتظامیہ کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ دلچسپ بات ہے کہ کل وفاقی خسارہ 3.8 کھرب روپے قرض کے سود پر سالانہ اُٹھنے والے ہرجانے کے مساوی ہے۔ 722 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ سے 1,173 ترقیاتی سکیمیں دس برس میں بھی بمشکل پوری ہوپائیں گی جبکہ ان کی لاگت بھی بڑھتی جائے گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجٹ خسارے کو ساڑھے آٹھ فیصد سے کم کر کے 5 فیصد سے کم کرپائے گی، دیوانے کی بڑ لگتی ہے جو ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط بھی ہے۔ لگتا ہے کہ کرنٹ اکاﺅنٹ یعنی بیرونی کھاتے کا خسارہ پورا کرنے کے لیے تقریباً 12ارب ڈالر بیرونی قرض درکار ہوگا جبکہ 21 ارب ڈالرز قرض بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا جائے گا اور زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی 8 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ یوں سب کو ملا کر تقریباً 40 ارب ڈالرز کا مزید قرض ناتواں معیشت کے کندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔ تجارتی خسارہ بھی 50 ارب ڈالرز سے کم ہوتا نظر نہیں آتا۔
لہٰذا، آمدنی و اخراجات میں جو بڑی خلیج ہے اسے پانٹتے پانٹتے ملک ادھ مویا ہوجائے گا۔ اس پر تاک میں بیٹھی اپوزیشن (PTI) اور عمران خان خوب آستینیں چڑھا کر میدان میں کودیں گے۔ بیرونی سازش کی کہانی تمام اور معیشت کی بدحالی پر نیا بیانیہ ترتیب پائے گا۔ یہ بھولتے ہوئے کہ عمران حکومت میں معاشی نمو کے پھولے ہوئے غبارے سے تاریخی بجٹ اور تجارتی خساروں نے پہلے ہی ہوا نکال دی تھی۔ درحقیقت اس مخلوط حکومت کے پاس وقت تھا نہ مالی و مالیاتی ذرائع جس کے بل پر وہ معیشت کی بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوئی دور رس اقدامات کرتی۔ بس ایک ہی معاشی گھن چکر ہے اور اوپر سے آئی ایم ایف کے احکامات، متوقع منی بجٹس اور عوامی خوشحالی خواب و خیال۔ ایک دست نگر، قرض خواہ اور مفت بر کرایہ خور معیشت و ریاست میں کوئی بنیادی تبدیلی لائے بھی کیسے، سوائے قومی خودداری اور خودمختاری کے خالی خولی نعروں سے عوام کو بہکانے کے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور کمیاب ہوتے ہوئے قومی ذرائع کے ہوتے ہوئے، ترقی کی 8فیصد شرح کا تقاضہ پورا ہو تو کیسے جب حاکم استحصالی طبقات محض مفت بر اور کرایہ خور ہوں۔ زراعت ہنوز پسماندہ اور صنعت بدستور درآمدات کی محتاج۔ جب تک بچتوں، سرمایہ کاری اور ٹیکسوں کی شرحیں قومی آمدنی (GDP)کے 20 فیصد سے اوپر اور آبادی کی شرح افزائش آدھی نہیں ہوتی، سو فیصد خواندگی، اعلیٰ تعلیم و تربیت، صحت و اچھی زندگی کی افزائش نہیں ہوتی پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ جن قدرتی ذرائع سے مالا مال ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ جانے کہاں پائے جاتے ہیں۔ اوپر سے خوفناک ماحولیاتی تباہیاں، جلتے جنگلات، خشک سالی اور 50 ڈگری سیلسیئس کا ٹمپریچر اور مہنگے ایندھن کی عدم دستیابی کے ہاتھوں بڑھتی لوڈ شیڈنگ ۔ برآمدات محدود اور مالی اعانت کی طلبگار، انسانی محنت غیر ہنر مند اور بے حال اور خواندہ و نیم خواندہ بیروزگار نوجوانوں کا ہجوم کبھی ادھر کبھی ادھر خوار ہواپھرتا ہے۔ اوپر سے ایک قومی سلامتی کی باجگزار جدید نوآبادیاتی ریاست جو ماضی کی طرح کسی نہ کسی لام کی منتظر۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ کہا گیا کہ ہم ایٹمی اسلحہ حاصل کرلیں گے تو روایتی اسلحہ اور دفاعی اخراجات کم ہوں گے۔ اور ہوا یہ کہ روایتی و غیر روایتی اسلحہ کی دوڑ بڑھ گئی۔ بھارت سے مقابلے کی دوڑ میں ہم معاشی دم ہار بیٹھے ہیں اور بھارت چین سے مقابلہ کرتے ہوئے ہانپ رہا ہے جبکہ دونوں ملکوں میں بھوکے ننگے لوگوں اور غربت کے ماروں کی تعداد ہر روز بڑھتی جاتی ہے۔ عمران حکومت کے دور میں دو کروڑ غریبوں میں اضافہ ہوا ہے جو اب سات کروڑ سے زیادہ ہیں۔ ہر پچھلی حکومت سے اگلی حکومت کو بدتر حالات درپیش ہوتے ہیں جو پچھلی حکومت کو کوستے کوستے زیادہ برے حالات چھوڑ کر اگلی حکومت کے کندھوں پر اضافی بوجھ ڈال جاتی ہے۔ سیاست نہ ہوئی بلی چوہے کا کھیل ہوگئی۔ ایک ہی طرح کے اُمرا اور ایک ہی طرح کے بالا دست طبقات کی پارٹیاں عوام کو بار بار بیوقوف بنا کر جانے کیا قومی خدمت انجام دیتی ہیں؟ سبھی آئی ایم ایف کے اسیر اور امرا کے قبضے کے نقیب اور عوام ہیں کہ بہکاوے میں آکر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے جاتے ہیں۔ بس ہمارا عزیز اور مفلوک الحال ملک اور اس کے استحصال زدہ محنت کش عوام نشانہ ستم ہیں۔ کبھی ایک کے ہاتھوں کبھی دوسرے کے ہاتھوں۔ بس کمر کس لیں کہ مہنگائی کا ایک اور ریلا آنے کو ہے اور کساد بازاری بھی۔ جسے کہتے ہیں افراط زر+ کساد بازاری (Stagflation)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں